Click Below Download Button ☺
Click Below Download Button ☺
Click Below Download Button ☺
Click Below Download Button ☺
Click Below Download Button ☺
Click Below Download Button ☺
Click Below Download Button ☺
Click Below Download Button ☺
Click Below Download Button ☺
Click Below Download Button ☺
Click Below Download Button ☺
Click Below Download Button ☺
جبیں نازاں نئی دہلی
افسانہ __
☘️ عمل رد عمل ☘️
کرولینا بارہ سال بعد حاملہ ہوئی ، وہ کافی خوش تھی اور اس کا ساتھی ابرام بھی ۔۔۔
ایک شام وہ اپنے کتب خانہ سے نکلا شمپئین کی بوتل تھامے ہوئے اس نے کہا
" کرولی! میں جو کہوں گا -تم مانوں گی نا ؟ انکار نہیں کروگی نا؟؟"
" نہیں !ڈارلنگ ! ۔۔۔۔۔
"ایسا کرو تم ابارشن کروا لو!"
کرولینا! ابرام کی آنکھیں غور سے دیکھتی ہوئی کہ کہیں اسے چڑھ تو نہیں گئی؟ لیکن ابرا م نشے میں نہیں تھا کرولینا چیخ پڑی!
"میں تمھیں قتل کردوں گی لیکن اپنے بچے کو نہیں ماروں گی!"
وہ دونوں ہاتھ سے اپنا پیٹ پکڑ کر صوفے پر بیٹھ گئی متوحش زدہ سی کیوں کہ وہ ابرام کے مزاج سے خوب واقف تھی ابرام کے جب جو دل میں آئے وہ کر ڈالتا ہے ۔۔اسے کسی کی کچھ پروا نہیں ہوتی وہ نفع و نقصان سوچتا ہے اور نہ ہی کسی کے جذبات و احساسات کا خیال کرتا ہے - بس اسے صرف اپنی خواہش پوری کرنے سے مطلب ۔۔
ابرام آگے بڑھا کرولینا کے قریب جھکا اور اسے گود اٹھالیا
"ڈئیر!تم جانتی ہو نا؟ کہ میں کیا ہوں ؟؟ گر تم نے احتجاج کیا تو مجھے جبر کرنا آتا ہے "
کرولینا خوف سے کانپنے لگی اس نے التجا آمیز لہجے میں کہا
" اس بچے کا بوجھ تمھارے سر نہیں میں اپنے ذمے لیتی ہوں ، میں تمھیں چھوڑ دوں گی! تمھارا شہر ، تمھارا ملک چھوڑ سکتی ہوں ، لیکن اپنے بچے کو کسی طور گنوانا نہیں چاہوں گی "
"تم مجھے چھوڑ دوگی!؟ میں تمھارے بغیر ایک پل نہیں رہ سکتا !"
گود اٹھائے ہوئے کرولینا کو بیڈ پر لٹادیا اور اس پر اوندھ گیا غصے سے اس کے گال کھینچنے لگا ۔۔کرولینا چلاتی ہوئی آٹھ بیٹھی !
"ہاں! اور میں اس بچے کے بغیر نہیں رہ سکتی! "
"تم مجھے سمجھنے کی کوشش کروکرولی! ابرام کرولینا کو پیار سے کرولی کہا کرتا تھا جب حد سے سوا پیار جتانے کی نوبت آتی تب "کرلی'کہا کرتا
"میں مر جاؤں گا کرلی! تمھارا عظیم قلم کار مر جائے گا!وہی ابرام جسے تم پیار سے' مائی گریٹ رائٹر ' کہتی رہی ہو یہ 'ٹونی ابرام' جس کی دیوانی ساری دنیا ہے اور وہ تمام لڑکیاں ۔۔۔۔جو بائبل سے زیادہ میری کتابوں کو اہمیت دیتی ہیں- ادب کی دنیا ایک مشہور و معروف قلم کار سے محروم ہوجائے گی!جس کی ذمے دار تم ہوگی! جس کا دیوانہ میں ہوں "
تم کرولی کے دیوانے نہیں ، قلم کے پجاری ہو، شہرت کے دیوانے ہو ! نہیں چاہئے مجھے یہ جھوٹی کہانیاں، عمل سے دور لفاظی اور کھوکھلے دعوں کا پلندہ جسے تم اور خوابوں میں جینے والے تمھارے قاری کتاب کہا کرتے ہیں میں اسے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر کاغذ اور قلم سے کھیلنے کے سوا کچھ نہیں سمجھتی۔ یہ انجان قاریوں کے ساتھ ایک چھلاوا ہے ۔۔یہ فکر و خیال کی آوارگی ہے بس ، "
کرولینا کے جذباتی جملے سن کر ابرام مسکرایا
کرولینا کو یہ مسکراہٹ استہزائیہ لگی اور یہ بپھر گئی ابرام کے ہاتھوں سے شمپئین کی بوتل زور سے چھپٹی جسے اس نے دوبارہ ابھی بھی تھامی پینے کے لیے
اس نے بوتل پوری طاقت سے ابرام کے منہ پر دے ماری -ابرام کا دماغ جھنجھنا اٹھا شراب بہہ گئی مارگریٹ کے منہ سے لے کر پیر تک ، مارگریٹ کی ناک سے خون بہنے لگا بوتل زمیں پر گرتے ہی چکنا چور ہوگئی ابرا م بڑھ کر کرو لینا کو پکڑنا چاہا کرولینا بجلی کی صورت کمرے سے نکل گئ ابرا م نے تعاقب کیا شیشے کے ٹکڑے کو روندتا ہوا مارگریٹ کے پاؤں میں شیشے کے کئی ٹکڑے چبھ گئے !
خون رسنے لگا مارگریٹ شیشے کی چبھن کو نظرانداز کرتا ہوا ڈرائنگ روم میں آیا کرولی سرجھکائے اپنے ٹخنے میں منہ چھپاکر اپنے وجود کو اپنے ہاتھوں کے حصار میں لیے بیٹھی ہوئی تھی ابرام نے آہستہ سے آکراس کے بغل میں بیٹھا اور اس کا سر اوپر اٹھایا ، اداس آنکھوں سے ایک عجیب سی خاموشی کے ساتھ دیکھتا رہا کرو لینا آبدیدہ نگاہوں سے دیکھتی ہوئی ابرا م کے سینے سے لگ کر روپڑی ابرام پاؤں میں چبھے ہوئے شیشے کے ٹکڑے کی چبھن بھول گیا -کرولینا کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے صرف اتنا کہا -
"میں ہار گیا کرولی!"
تب کرو لینا نے اپنے سارے آنسو ابرام کے کاندھے پر بہا دیے اور ابرام سے الگ ہوکر ہولے ہولے سسکتی رہی
دراصل ابرام ایک کہانی کے لیے اس عورت کے احساس و جذبات کا ادراک حاصل کرنا چاہ رہا تھا جب وہ شدید انتظار کے بعد حاملہ ہوتی ہے -اور پھر حمل ضائع ہونے کے بعد جس کیفیت سے دوچار ہوتی ہے یہ اسی کیفیت کا مشاہدہ کرنا چاہتا تھا
کرولینا گرچہ ظاہری طور پر ابرام کی شکست سے خوش تھی لیکن خوف کا سانپ اس کے دل میں کنڈلی مار کر بیٹھ گیا تھا' گر ابرام مجھے لاعلم رکھ کر میرے ساتھ کوئی سازش کی - یعنی کہ اسقاط حمل دوائیاں غذائی اشیا کے ساتھ کھلا دی تو ۔۔۔؟؟لہذا وہ ہر لمحہ چاق و چوبند ہرنی کی صورت چو کنا رہنے لگی کہ شکاری کامیاب نہ ہوجائے ! اس کی مستعدی اس وقت زیادہ ہوجاتی جب ابرام شراب پینے پر مجبور کرتا ۔۔لیکن کرو لینا نے پینا پچھلے ہفتے سے ترک کیا ہوا تھا ۔۔
سولہواں ہفتہ چل رہا تھا کرو لینا اسپتال میں بیہوشی کی حالت میں بیڈ پر پڑی تھی-ابرام نہایت تندہی کے ساتھ نگہداشت کررہا تھا-
دن کے بارہ بج چکے تھے اس وقت اسے ایک دوا کھلانی تھی اس نے کرو لینا کو جگایا
"کرولی! کرولی ۔۔۔!"
کرو لینا کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے آہستہ سے پکارا
کرو لینا کی مخمور آنکھیں وا ہوئیں اس نے اپنا پیٹ ہلکا سا محسوس کیا اس نے پیٹ پر ہاتھ پھیرا ۔۔ابھرا ہوا پیٹ دھنسا ہوا اور بے جان سا لگا ۔۔ ابرام کی آنکھیں بھیگ گئیں کرو لینا کا دماغ سن ہوکر رہ گیا وہ دھڑا ک اٹھ بیٹھی
"ابرام ! میرا بچہ مائیکل کیا ہوا؟؟"
کرو لینا روتی ہوئی چیخ پڑی اس کی آنکھیں وحشت سے پھیل گئیں!
ابرام مجرم کی طرح سر جھکا ئے ہوئے صرف اتنا کہا
"آئی ایم ویری سوری کرلی! ہمارا بچہ نارمل نہیں تھا ۔۔اسے تین ہاتھ ، ایک پیر ، اور دوسر تھے ڈاکٹروں کے مشورے پر میں نے ۔۔۔۔۔"
کرولینا ا دہاڑی!
"قاتل !جعلی رائٹر !تم جھوٹ بول رہے ہو! تمھیں نئی کہانی کے لیے ایک زندہ کردار چاہئے تھا اور اس ماں کا درد جو بچے سے محروم کردی جاتی ہے !
"پاگل مت بنو! "
ابرام کو اپنی بے بسی پر رونا نہیں غصہ آیا اس نے کہا
"دیکھو !دیکھو! میڈیکل رپورٹ ، اور یہ ہے اس اسپتال کا دستاویز ۔۔۔"
مارگریٹ اپنے ہینڈ بیگ سے سارے کاغذات اس کے سامنے لہراتے ہوئے دیکھا یا
" نہیں دیکھنی! مجھے یہ رپورٹ ! کرولینا کے منہ سے جھاگ اڑنے لگی
"تم جھوٹے ، یہ رپورٹ جھوٹی ، ڈاکٹرز جھوٹے ۔یہ دنیا جھوٹی ۔۔مائیکل میرا بچہ ۔۔"
کہہ کر روتی ہوئی دھڑاک سے اٹھی کپکپاتی ہوئی ابرام کے بال پکڑ کر کھیچتی ہوئی بولی !
"مجھے میرا مائیکل چاہئے!"
ابرام کی نظر کرو لینا کی ڈھیلی ڈھالی بلیو رنگ نائٹی پر پڑی جو خون آلود ہورہی تھی لگتا ہے بلیڈنگ پھر زیادہ ہوگئی لیکن اس پاگل کو خبر نہیں ، بچے کے لیے دیوانی ہوئی جارہی ہے ۔۔کتنی نازک حالت ہے اس کی کاش!اسے معلوم ہوتا- ابرام نے پکڑ کر اسے بٹھانا چاہا کرو لینا بیڈ سے نیچے فرش پر دھڑام سی گرپڑی - ابرام لرز کر رہ گیا ، اسے سنبھالنا چاہا لیکن خود لڑکھڑا کر رہ گیا گرتے گرتے بچا کرو لینا کے سر اور پیٹھ کے نیچے دونوں ہاتھ لگا کر اٹھایا اور بیڈ پر لٹادیا ۔کرو لینا بیہوش ہوچکی تھی ۔۔مارگریٹ ریسپشن کاؤنٹر پر گیا ۔۔نرس سے کرو لینا کی کیفیت بتائی ۔۔ نرس اٹھی اور ابرام کے پیچھے چل دی ۔۔کرو لینا کے وارڈ نمبر 12 میں داخل ہوئی بیڈ نمبر 19 پر کرو لینا مردہ حالت میں پڑی تھی، نرس نے دیکھتے ہی کہا ۔۔آپ اسے "فوراً ماہر قلب (ہارٹ اسپیشلسٹ) کے پاس لے جائیں "
ابرام دوڑا ہوا ا نچارج کے پاس آیا ، اسٹریچر منگوایا اور اسٹریچر پر بیہوش پڑی کرو لینا کو لٹایا ۔۔لفٹ کی مدد سے اسپتال کے 9 ویں منزل پر پہنچا ایمرجنسی وارڈ میں لے کر داخل ہوا ، دیگر مریضوں کے معائنہ میں مصروف تین ڈاکٹرز اس کی طرف متوجہ ہوئے ۔۔اسٹریچر کے قریب آئے !دیکھتے ہی کہا ۔۔یہ 'کوما 'میں چلی گئیں ہیں ۔۔ابرام رو پڑا۔
کرولینا کو آئی سی یو میں وینٹی لیٹر پر ڈال دیا گیا ۔رات دن ابرام تیماداری نہایت دل داری کے ساتھ کرتا رہا کرو لینا کی حالت روز بروز بہتر ہورہی تھی -
پندرہ دن بعد کرو لینا کو اسپتال سے چھٹی ملی مارگریٹ اسے گھر لانے میں کامیاب ہوا ۔۔لیکن کرو لینا اپنے ہوش و حواس ہی نہیں اپنی آواز تک گنواچکی تھی ۔۔
ٹک ٹک دیدم ،دم نہ کشیدم
ابرام نہایت افسردہ تھا اس سے کرو لینا کی موجودہ حالت دیکھی نہیں جاتی ۔اس کا جی اب کسی کام میں نہیں لگتا حتی کہ اس نے لکھنا پڑھنا بھی چھوڑ رکھا تھا
ابرام کا ناول "دنیا ایک تماشہ ہے" آخری مرحلے میں نامکمل پڑا تھا ادبی دنیا میں اس ناول کی اشاعت کا شدت سے انتظار کیا جارہا تھا اس ناول کی ایڈوانس بکنگ ہوچکی تھی ، ناشر صبح و شام اس کے در پر دستک دینے آجاتے ابرام مذبذب اور بیزار تھا ۔۔ان گنت میل ، بے شمار واٹس ایپ پیغامات ، ٹوئٹر/فیس بک /انسٹاگرام پر اس کے دو ملین فالورز پریشان کررہے تھے، یہ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق موبائل کوڑے دان میں ڈال دیا تمام سوشل اکاؤنٹ بند کردیئے بوجھل قدموں سے اپنے کتب خانہ میں گیا کمرے پر ایک نظر ڈالی میز کو بغور دیکھا کاغذ قلم تمام اشیا سوالی بن گئے ، کاغذات پر گرد کی ایک تہہ جمی ہوئی تھی ، کرسی پر بیٹھا میز پر سر ٹیک کر اوندھ گیا کافی دیر تک یوں ہی اوندھا پڑا رہا ،
آج کتنی تاریخ ہے ؟کون سا دن ہے ابرام نے سوچا شاید آج منگل ہے ۔۔نہیں بدھ یا سموار ہے ؟ اب یہ شش و پنج میں مبتلا ہوا کہ آیا آج کون سا دن ہے؟؟
یہ تاریخ یاد کرنے لگا ۔۔کرو لینا بروز سموار 15 مئی اسپتال سے نکلی تھی ۔۔آج اسے نکلے ہوئے ایک ماہ سے زائد ہوگئے ہیں یہ تو جون کا مہینہ چل رہا ہے جون کا پہلا عشرہ گزرگیا شاید ۔۔مجھے کچھ یاد ہی نہیں ۔موبائل ہوتا تو پتہ چل جاتا ۔۔ لیکن میں نے اسے کنارے لگادیا ۔۔۔
جانے دو کوئی بھی دن کوئی بھی تاریخ ہو زندگی جب ٹھہر گئی ہے تو ماہ سال بدلنے سے کیا فرق پڑتا ہے ۔۔؟
ابرام نے سر اوپر اٹھایا ، اپنی آنکھیں ملیں ، جمائی لی اٹھا اور کمرے سے نکل کر مہمان خانے میں آیا اس کی نظر سامنے کرو لینا کی تصویر پر پڑی کتنی خوبصورت لگ رہی ہے کرولی آج سے سولہ سال قبل جب پہلی بار اس نے کرو لینا کو جوزف کی بیسویں سالگرہ کی تقریب میں دیکھا تھا ۔سفید بکنی میں بالکل اپسرا لگ رہی تھی میں پہلی ہی نظر میں اس پر فدا ہوگیا تھا اپنے موبائل پر اس کی تصویر اتاری تھی ۔اس نے صوفے پر کھڑے ہوکر فریم اتاری فریم کے شیشے پر جمی دھول اپنے دستی سےصاف کی حسرت و شوق سے تصویر کو دیکھتا رہا ۔۔دیکھتے ہوئے سوچنے لگا ۔۔انسان کا چہرہ بدل کیوں جاتا ہے؟؟ کرو لینا اب بھی خوبصورت ہے ۔۔لیکن وہ معصومیت اور وہ رونق نہیں جو آج سے سولہ سال قبل تھی وہ ٹکٹکی باندھے ہوئے تکے جارہا تھا ۔۔پھر اس نے تصویر چوم لی میری کرو لینا کو وقت کی رفتار نے ہم سے چھین لیا! کتنا دیوانہ تھا میں اس کا ان دنوں ۔۔
ابرام پچھلے دنوں کو یاد کررہا تھا اسے ایک آہٹ سی محسوس ہوئی دروازے سے جھانک کر دیکھا کرو لینا ابرام کے کتب خانہ میں جارہی تھی شاید وہ مجھے ڈھونڈنے جارہی ہےابرام یہ سوچ کر خوش ہوا ۔۔
ابرام اٹھا اور کرولینا کا تعاقب کیا ۔۔
کرو لینا میز پر رکھے ہوئے ناول کے مسودہ پر شراب چھڑک کر آگ لگادی!
ابرام یہ منظر دیکھ کر دم بخود رہ گیا چپ چاپ سکتے کے عالم میں کھڑا رہا کرو لینا آگ کے بڑھتے شعلوں سے بچنے کی خاطر کمرے سے نکلنا چاہا ، ابرام کی نشست گاہ کی طرف سے دروازے تک آئی پلٹ کر دیکھا تو ابرام دروازہ پر بت کی مانند جامد و ساکت کھڑا تھا ۔۔کرو لینا کی نظر ابرام سے جا ٹکرائی، ابرام کی آنکھیں آبدیدہ ہوگئیں اس نے کرو لینا کو سینے سے لگاتے ہوئے کہا !
"مائی سویٹ ڈارلنگ!تم نے جو کیا بہت اچھا کیا! براہ مہربانی مجھے چھوڑ کر مت جانا! ایک ممتا کا اقدام اس سے مختلف ہو نہیں سکتا تھا میں تمھیں کیسے یقین دلاؤں کہ ہمارا بچہ نارمل نہیں تھا !"
ابرام کرو لینا کا دایاں بازو پکڑے ہوئے چل پڑا اور اسے لے کر مہمان خانے میں آیا کرو لینا کو صوفے پر بٹھایا کرو لینا بالکل خاموش سی بیٹھ گئی ، تب ابرام اس کی گود میں سر رکھ کر صوفے پر لیٹ گیا اور ایک بچے کی مانند رو پڑا!
کرو لینا کچھ سمجھ نہ سکی گردن ترچھی کیے ہوئے ابرام کو یوں دیکھ رہی تھی کہ جیسے اس کی گود میں ابرام نہیں مائیکل ہو ، اس کے چہرے پر ملکوتی نور جھلک رہا تھا اور یہ مریم جیسی معصوم لگ رہی تھی!!
🍁☘️ختم شد☘️🍁
جبیں نازاں نئی دہلی
اردو زبان کا فروغ اور نفاذ دو الگ موضوعات ہیں بعض صاحبانِ ادب اس کو ہم معنی سمجھتے ہیں جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔اگر اردو کے فروغ کی بات کی جائے تو پڑوسی ملک لاکھ کہے وہ ہندی زبان بول رہے ہیں لیکن سمجھنے والے کو علم ہے یہ بولنے میں اردو ہی ہے لیکن لکھنے میں ہندی زبان ہے۔اس لحاظ سے تو اردو کے بولنے میں پڑوسی ملک کا بھی کردار ہوا۔لیکن جب بات نفاذ کی کی جاتی ہے تو اس مراد صرف زبان کا بولنا مراد نہیں ہے بلکہ سرکاری سطح پر اسکی سرپرستی کی جائے ۔کوئی مراسلہ بھی انگریزی زبان یا غیرملکی زبان میں نہ ہو ۔عدالتیں مقدمات سنیں بھی اردو میں اور فیصلے بھی اردو میں جاری کریں ۔اساتذہ کرام اردو کو اپنا اوڑنا بچھونا بنا لیں اگرچہ وہ کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھتے ہوں ۔سرکاری پیغامات اردو میں ہوں ۔نرسری سے لیکر بی۔اے تک اردو کو لازمی قرار دیا جائے ۔مختلف علوم کے تراجم اردو زبان میں کیے بھی جائیں اور ان کو پڑھایا بھی جائے ۔قومی اسمبلی میں تقاریر کے لیے اردو کا لازمی قرار دیا جائے ۔لیکن جب تک اردو سے شغف رکھنے والے اساتذہ، شعراء، ادیب ،ڈرامہ نگار، ناول نگار، افسانہ نویس اور میڈیا اس عظیم مقصد کا ادراک نہیں کریں گے تب تک اس کا نفاذ ایک مشکل کام ہوگا۔۔
خیر اندیش ۔۔۔ آفتاب شاہ
کسی قوم کی ترقی اور تربیت کا تیسرا زینہ اس کی معیشت کے ساتھ وابستہ ہے۔قرضوں کے بوجھ سے آزادی کسی بھی قوم کے سر کو بلند کردیتی ہے۔کسی بھی شعبے میں خود کفیل ہونا ایک قوم کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کا اشارہ دیتا ہے۔دولت کی بہتات جہاں زندگی گزارنے کے رویوں میں تبدیلی کا مظہر بنتی ہے وہاں پر نئے نظریات بھی جنم لیتے ہیں اور افراد کا بات کرنے کا انداز ہی نہیں بدلتا بلکہ ان کا جینے کا رنگ ڈھنگ بھی منفرد ہوجاتا ہے۔جدت صرف ناچ گانے کا نام نہیں ہوتی بلکہ سائنس اور جدید علوم قوم کی پہلی ضرورت بن جاتے ہیں ۔عیاشی کی بجائے محنت اور آگے بڑھنے کا جذبہ اس لیے برقرار رہتا ہے کہ کہیں آسمان سے زمین پر نہ گر پڑیں ۔ایسی اقوام فیصلے سنتی نہیں ہیں بلکہ اپنے فیصلوں سے دنیا کو بدلنے کا ہنر سیکھ لیتی ہیں ۔
از قلم آفتاب شاہ