اردو زبان کا فروغ اور نفاذ دو الگ موضوعات ہیں بعض صاحبانِ ادب اس کو ہم معنی سمجھتے ہیں جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔اگر اردو کے فروغ کی بات کی جائے تو پڑوسی ملک لاکھ کہے وہ ہندی زبان بول رہے ہیں لیکن سمجھنے والے کو علم ہے یہ بولنے میں اردو ہی ہے لیکن لکھنے میں ہندی زبان ہے۔اس لحاظ سے تو اردو کے بولنے میں پڑوسی ملک کا بھی کردار ہوا۔لیکن جب بات نفاذ کی کی جاتی ہے تو اس مراد صرف زبان کا بولنا مراد نہیں ہے بلکہ سرکاری سطح پر اسکی سرپرستی کی جائے ۔کوئی مراسلہ بھی انگریزی زبان یا غیرملکی زبان میں نہ ہو ۔عدالتیں مقدمات سنیں بھی اردو میں اور فیصلے بھی اردو میں جاری کریں ۔اساتذہ کرام اردو کو اپنا اوڑنا بچھونا بنا لیں اگرچہ وہ کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھتے ہوں ۔سرکاری پیغامات اردو میں ہوں ۔نرسری سے لیکر بی۔اے تک اردو کو لازمی قرار دیا جائے ۔مختلف علوم کے تراجم اردو زبان میں کیے بھی جائیں اور ان کو پڑھایا بھی جائے ۔قومی اسمبلی میں تقاریر کے لیے اردو کا لازمی قرار دیا جائے ۔لیکن جب تک اردو سے شغف رکھنے والے اساتذہ، شعراء، ادیب ،ڈرامہ نگار، ناول نگار، افسانہ نویس اور میڈیا اس عظیم مقصد کا ادراک نہیں کریں گے تب تک اس کا نفاذ ایک مشکل کام ہوگا۔۔
خیر اندیش ۔۔۔ آفتاب شاہ
No comments:
Post a Comment